Enlightening 90 Quotes by Hazrat Abu Bakr رضی اللہ عنہ in Urdu

اللہ سے ڈرنے والا ہی (ہر خوف سے ) امن میں ہوتا ہے اور ( ہر شر اور مصیبت سے ) محفوظ ہوتا ہے۔
الترغيب والترهيب
اللہ تعالیٰ کی طرف سے (انسانوں کے ذمہ ) دن میں کچھ ایسے عمل ہیں جن کو وہ رات میں قبول نہیں کرتے ہیں اور ایسے ہی اللہ کی طرف سے (انسانوں کے ذمہ ) رات میں کچھ عمل ایسے ہیں جن کو وہ دن میں قبول نہیں کرتے اور جب تک فرض ادا نہ کیا جائے اس وقت تک اللہ نفل قبول نہیں فرماتے ۔ دنیا میں حق کا اتباع کرنے اور حق کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے ہی قیامت کے دن اعمال کا ترازو بھاری ہوگا ۔
حياة الصحابة
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ جہاں سختی اور تنگی کی آیت ذکر کرتے ہیں وہاں اس کے قریب ہی نرمی اور وسعت کی آیت بھی ذکر کرتے ہیں اور جہاں نرمی اور وسعت کی آیت ذکر کرتے ہیں وہاں اس کے قریب ہی سختی اور تنگی کی آیت بھی ذکر کرتے ہیں تا کہ مومن کے دل میں رغبت اور ڈر دونوں ہوں اور وہ (بے خوف ہوکر ) اللہ سے ناحق تمنائیں نہ کرنے لگے اور ( نا امید ہوکر ) خود کو ہلاکت میں نہ ڈال لے۔
حياة الصحابة

اپنے ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے وہ کام چھپ کر کرو یا سب کے سامنے ۔ اللہ سے شرم کرتے رہنا کیونکہ وہ تمہیں اور تمہارے تمام کاموں کو دیکھتا ہے۔
تاريخ الطبري

لوگوں کی اندر کی باتوں کو ہرگز نہ کھولنا بلکہ ان کے ظاہری اعمال پر اکتفاء کر لینا اوراپنے کام میں پوری محنت کرنا اور دشمن سے مقابلہ کے وقت جم کر لڑنا اور بزدل نہ بننا ( اور مال غنیمت میں اگر خیانت ہونے لگے تو اس ) خیانت کو جلدی سے آگے بڑھ کر روک دینا۔
تاريخ الطبري
ظاہر اور باطن میں اللہ سے ڈرتے رہو ۔ کیونکہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لئے ( ہر مشکل، پریشانی اور سختی سے) نکلنے کا راستہ ضرور بنا دے گا اور اس کو وہاں سے روزی دے گا جہاں سے روزی ملنے کا گمان بھی نہ ہوگا اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے بڑا اجر دے گا
۔تاريخ الطبري
جب کوئی آدی امیر بنتا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اور یہ امیر ظالم سے مظلوم کا بدلہ نہیں لیتا ہے تو پھر ایسے امیر سے اللہ بدلہ لیتا ہے جیسے تم میں سے کسی آدمی کے پڑوسی کی بکری ظلماً پکڑ لی جاتی ہے تو سارا دن اس پڑوسی کی حمایت میں غصہ کی وجہ سے اس کی رگیں پھولی رہتی ہیں۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ بھی اپنے پڑوسی کی پوری حمایت کرتے ہیں
حياة الصحابة

جب کچھ لوگ ایسے لوگوں کے سامنے گناہ کے کام کریں جو ان سے زیادہ طاقتور اور بااثر ہوں اور وہ انہیں ان برے کاموں سے نہ روکیں تو ان سب پر اللہ تعالیٰ ایسا عذاب نازل فرمائیں گے جسے ان سے نہیں ہٹا ئیں گے۔
حياة الصحابة
سب سے بڑی عقلمندی تقویٰ ہے اور سب سے بڑی حماقت فسق و فجور ہے اور جو تم لوگوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہے ( اور وہ طاقت کے زور سے کمزوروں کے حق دبا لیتا ہے ) وہ میرے نزدیک کمزور ہے میں کمزور کو اس طاقتور سے اس کا حق دلوا کر رہوں گا اور جو تم میں سب سے زیادہ کمزور ہے (جس کے حق طاقتوروں نے دبا رکھے ہیں) وہ میرے نزدیک طاقتور ہے میں اس کے حق طاقتوروں سے ضرور لے کر دوں گا۔

جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دے گی ان پر اللہ تعالیٰ فقر مسلط کر دیں گے اور جس قوم میں بے حیائی عام ہو جائے گی اللہ تعالیٰ ان سب پر مصیبت بھیجیں گے۔
حياة الصحابة

جب تک موت نے مہلت دے رکھی ہے اس وقت تک تم لوگ نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اس سے پہلے کہ موت آ جائے اور عمل کرنے کا موقع نہ رہے۔
حياة الصحابة
اس قول میں کوئی خیر نہیں جس سے اللہ کی رضا مقصود نہ ہو اور اس مال میں کوئی خیر نہیں جسے اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کیا جائے اور اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جس کی نادانی اس کی بردبادی پر غالب ہو اور اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جو اللہ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ڈرے۔ یعنی وہاں تو خیر اور شر کا معیار بندے کے اعمال ہیں۔
تفسير ابن كثير

اللہ تعالیٰ کے اور اس کی کسی مخلوق کے درمیان کوئی ایسا نسب کا رشتہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اللہ اسے خیر دے اور اس سے برائی کو دور کرے۔حياة الصحابة

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تم تقوئی اور پاکدامنی اختیار کرو تو تھوڑا عرصہ ہی گزرے گا کہ تمہیں پیٹ بھر کر روٹی اور گھی ملنے لگے گا۔
حياة الصحابة

اللہ سے معافی بھی مانگو اور عافیت بھی۔ کیونکہ کسی آدمی کو ایمان و یقین کے بعد عافیت سے بہتر کوئی نعمت نہیں دی گئی یعنی سب سے بڑی نعمت تو ایمان ویقین ہے اور اس کے بعد عافیت ہے۔
حياة الصحابة
سچ کو لازم پکڑے رہو کیونکہ سچ بولنے سے آدمی نیک اعمال تک پہنچ جاتا ہے۔ سچ اور نیک اعمال جنت میں لے جاتے ہیں اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ بولنے سے آدمی فسق و فجور تک پہنچ جاتا ہے اور جھوٹ اور فسق و فجور دوزخ میں لے جاتے ہیں۔
حياة الصحابة
صدقہ فقیر کے سامنے عاجزی سے با ادب پیش کر، کیونکہ خوشدلی سے صدقہ دینا قبولیت کا نشان ہے۔
عبادت ایک پیشہ ہے، دکان اس کی خلوت ہے، راس المال اس کا تقویٰ ہے اور نفع اس کا جنت ہے۔

اللہ تعالیٰ کی عبادت کی سستی عام لوگوں سے بد ہے، لیکن عالموں اور طالب علموں سے بدتر ہے۔
شرم مردوں سے خوب ہے مگر عورتوں سے خوب تر ہے۔
توبہ بوڑھے سے خوب اور جوان سے خوب تر ہے۔
سخاوت مردوں سے خوب ہے لیکن محتاج سے خوب تر ہے۔
گناہ جوان بھی اگر چہ بد ہے لیکن بوڑھے کا بدتر ہے۔
گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے ، مگر گناہ سے بچنا واجب تر ہے۔
مصیبت میں صبر کرنا سخت ہے مگر صبر کے ثواب کو ضائع نہ ہونے دینا سخت تر ہے۔
زمانہ کی گردش اگرچہ عجیب امر ہے ، لیکن اس سے غفت عجیب تر ہے۔
جو امر پیش آتا ہے وہ نزدیک ہے ، لیکن موت اس سے بھی نزدیک تر ہے۔
بخشش کرنا امیر سے خوب ہے لیکن محتاج سے خوب تر ہے۔
مشغول ہونا ساتھ دنیا کے جاہل کا بد ہے، لیکن عالم کابد تر ہے۔
تکبر کرنا امیروں کا بد ہے، لیکن محتاجوں کا بد تر ہے۔
تواضع غریبوں سے خوب ہے ، لیکن امیروں سے خوب تر۔

صبح خیزی میں مرغان سحر کا سبقت لے جانا تیرے لئے باعث ندامت ہے۔

لوگوں سے تکلیف کو دور کر کے خود اٹھا لینا حقیقی سخاوت ہے۔

جاہ وعزت سے بھاگو تو عزت تمہارے پیچھے پھرے گی اور موت پر دلیر رہو تا کہ تمہیں ابدی زندگی بخشی جائے۔

شکر گزار مومن عافیت سے قریب تر ہے۔

بد بخت انسان وہ ہے جو خود تو مر جائے لیکن اس کا گناہ نہ مرے۔ یعنی کوئی بری بات جاری کر جائے ، براعمل جاری کر جائے یا بری کتاب کی اشاعت کر جائے۔
سو درہم میں سے اڑھائی درہم بخیلوں اور دنیا داروں کی زکوۃ ہے اور صدیقوں کی زکوۃ تمام مال کا صدقہ کر دینا ہے۔
دولت آرزو کے ساتھ، جوانی خضاب کے ساتھ اور صحت دواؤں کے ساتھ حاصل نہیں ہوتی۔
عدل وانصاف ہر ایک سے خوب ہے۔
پورا کرتا ہے نماز کو سجدہ سہو پورا کرتا ہے روزہ کو صدقہ فطر پورا کرتا ہے حج کو فدیہ اور پورا کرتا ہے ایمان کو جہاد۔
جسے رونے کی طاقت نہ ہو وہ رونے والوں پر رحم ہی کیا کرے۔
زبان کو شکوہ سے روک ، خوشی کی زندگی عطا ہو گی۔
اس دن پر رو جو تیری عمر کا گزر گیا اور اس میں نیکی نہیں کی۔
ہر گز کوئی شخص موت کی تمنا نہیں کرے گا سوائے اس کے جس کو اپنے عمل پر وثوق ہو گا۔
مسئول پر سائل کا حق واجب ہے اور عمد جواب حسن اخلاق ہے۔
ہر چیز کے ثواب کا ایک اندازہ ہے، سوائے ثواب صبر کے کہ وہ بے اندازہ ہے۔
خوف الہی بقدر علم ہوتا ہے اور اللہ تعالٰی سے بے خوفی بقدر جہالت۔
خلقت سے تکلیف دور کر کے خود اٹھا لینا حقیقی سخاوت ہے۔
اخلاص یہ ہے کہ اعمال کا عوض نہ چاہے۔ دنیا کو آخرت کے لیے اور آخرت کو اللہ تعالیٰ کے لیے چھوڑدے۔
تو دنیا میں رہنے کے سامانوں میں لگا ہے اور دنیا تجھے اپنے سے نکالنے میں سرگرم ہے۔
جس کا سرمایہ دنیا ہے، اس کے دین کا نقصان زبانیں بیان کرنے سے عاجز ہیں۔
علم کے سبب کسی نے اللہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بخلاف مال کے۔
صبر میں کوئی مصیبت نہیں اور رونے میں کچھ فائدہ نہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وفات کو یاد کرو تو تم کو اپنی مصیبت بہت کم معلوم ہوگی۔
عورتوں کو سونے کی سرخی اور زعفران کی زردی نے ہلاک کر رکھا ہے۔
جو شخص ابتدائے اسلام میں مرگیا وہ بہت خوش نصیب تھا۔
کاش میں کسی مومن کے سینے کا ایک ہال ہی ہوتا۔
لوگو اللہ تعالیٰ سے شرم کرو۔ واللہ میں جب کبھی میدان میں قضائے حاجت کے لیے جاتا ہوں تو اللہ تعالیٰ سے شرما کر سر نیچے کر لیتا ہو۔ لہذا اپنے اعمال و افعال میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر سمجھ کر ڈرتے اور شرم کرتے رہو۔
گفتگو میں اختصار کر، کلام مفید وہ جو آسانی سے سنا جائے، طول کلامی کا کچھ حصہ زہنوں سے ضائع ہوتا ہے۔
علم پیغمبروں کی میراث ہے اور مال کفار فرعون و قارون وغیرہ کی۔
دل مردہ ہے اور اس کی زندگی علم ہے۔ علم بھی مردہ ہے اور اس کی زندگی طلب کرنے سے ہے۔
وہ علماء حق تعالی کے دشمن ہیں جو امرا کے پاس جائیں۔ اور وہ امراء حق تعالیٰ کے دوست ہیں، جو علما کے پاس جائیں۔
نوک زبان کو بار بار پکڑتے اور فرماتے کہ اس نے مجھے بہت جگہ پھنسایا ہے۔
بندے میں جب زینت دنیا سے عجب آئے تو اللہ تعالیٰ اسے دشمن رکھتا ہے، حتی کہ وہ اس زینت سے جدا ہو جائے۔
کاش میں درخت ہو تا کہ اس کو کاٹ کر کھا لیتے۔ یہ اس لیے تھا کہ آپ پر خوف و حزن بغایت درجہ غالب تھا۔
میری نصیحت قبول کرنے والا دل موت سے زیادہ کسی کو محبوب نہ رکھے۔
وہ لوگ بہتر نہیں ہیں، جو دنیا کو آخرت کے لیے ترک کر دیتے ہیں بلکہ بہتر وہ ہیں جو دنیا و آخرت دونوں کو لیتے ہیں۔
مافات کا تدراک ماآت سے کرو اور پرانے گناہوں کو نئی نیکیوں سے مٹاؤ۔
جو اللہ تعالیٰ کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی اس کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔
مومن کو اتنا علم کافی ہے کہ اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے۔
سفر کی دوری اور قلت زاد راہ سے ڈرتا رہ۔
مصیبت کی جڑ کی بنیاد انسان کی گفتگو ہے۔
مومن کے خوف و رجا کو اگر وزن کریں تو دونوں برابر ہوں گے۔
شریف پڑھ کر متواضع اور وضیع پڑھ کر متکبر ہو جاتا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ مختصر الفاظ بطور ورو نعم القادر الله” پڑھتے۔
بروں کی ہم نشینی سے تنہائی بدرجہا بہتر ہے اور تنہائی سے صلحا کی صحبت بدرجہا بہتر ہے۔
طالب دین عمل میں زیادتی کرتا ہے اور طالب دنیا علم میں۔
وہ ذات پاک ہے ، جس نے اپنی مخلوق کے لیے سوائے عجز کے راستہ نہیں بنایا ۔
اگر نیکی کسی وجہ سے رو جائے تو اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اگر اسے پالو تو آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔
جس پر نصیحت اثر نہ کرے وہ جان لے کہ میرادل ایمان سے خالی ہے۔
علم کی قوت جب حد سے بڑھ جائے تو مکاری و بسیاردانی اور ناقص ہو تو حماقت پیدا کرتی ہے۔
عمل بغیر علم کے سقیم و بیمار اور علم بغیر عمل کے عقیم و بے کار ہے۔
آنکھ کا کاسہ دل کا دروازہ ہے کہ قلب کی تمام آفتیں اسی راستہ سے آتی ہیں اور شہوت ولذات پیدا ہوتی ہیں۔ آنکھ بند کرلے تمام آفتوں سے محفوظ ہو جائے گا۔
موت سے محبت کرو تو زندگی عطا کی جائے گی۔
انسان ضعیف ہے تعجب ہے کہ وہ کیوں کر اللہ قوی کی نافرمانی کرتا ہے۔