Enlightening 135 Hazrat Ali رضی اللہ عنہ Quotes in Urdu
With the help of our collection of “Enlightening 135 Hazrat Ali رضی اللہ عنہ Quotes in Urdu,” delve into the profound wisdom of Hazrat Ali رضی اللہ عنہ. These ageless proverbs provide profound insights about morality, spirituality, and life. Every quotation embodies Hazrat Ali’s رضی اللہ عنہ unparalleled faith and character, offering direction for overcoming daily obstacles and advancing spiritually. This well-chosen collection will inspire you and guide you toward morality and inner tranquility. Explore these Urdu quotes by Hazrat Ali رضی اللہ عنہ to infuse your life with enduring wisdom and profound understanding.

ہر انسان کی قیمت اس کام سے لگائی جاتی ہے جس کو وہ ( دوسروں کے مقابلہ میں اور اپنے دوسرے کاموں کے مقابلہ میں) بہتر طریقہ پر انجام دیتا ہے، (انسان کی قیمت اس کے خاص ہنر سے لگائی جاتی ہے )

لوگوں سے ان کی ذہنی سطح اور فہم کے مطابق بات کرو کیا تمہیں پسند ہے کہ کوئی اپنے فہم اور ادراک سے بالا ہونے کی وجہ سے) اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلائے ۔

ایک شریف آدمی اس وقت بے قابو ہوتا ہے، جب بھوکا ہو اور ایک پست فطرت انسان اس وقت بے قابو اور جامہ سے باہر ہوتا ہے، جب شکم سیر ہو
( اس کو کسی کی ضرورت نہ ہو )
ان دلوں کو بھی آرام دو، ان کے لئے حکمت آمیز لطیفے تلاش کرو، کیونکہ جسموں کی طرح دل بھی تھکتے اور اکتا جایا کرتے ہیں۔
نفس خواہشات کو ترجیح دیتا ہے، سہل اور سست راہ اختیار کرتا ہے، تفریحات کی طرف لپکتا ہے، برائیوں پر ابھارتا ہے، بدی اس کے اندر جاگزیں رہتی ہے، راحت پسند ہے، کام چور ہے، اگر اس کو مجبور کرو گے ، تو لاغر ہو جائے گا، اور اگر چھوڑو گے تو ہلاک ہو جائے گا۔
خبر دار ہوشیار! اللہ کے سوا قطعا تم میں سے کوئی کسی سے امید نہ قائم کرے، اپنے گناہوں کے سوا کسی بات سے نہ ڈرے، اگر کوئی چیز نہ آتی ہو تو سیکھنے سے شرم نہ محسوس کرے، اور اگر اس سے کوئی ایسی بات دریافت کی جائے جس کو نہیں جانتا ہو تو کہہ دے مجھے معلوم نہیں۔

غربت ذہانت کو کند کر دیتی ہے، ایک غریب آدمی اپنے وطن میں رہ کر بھی پردیسی ہوتا ہے۔

ناکارگی آفت ہے، صبر بہادری ہے، زہد خزانہ ہے، خوف خدا ڈھال ہے۔

اخلاق و آداب ایسے جوڑے ہیں جو بار بار نئے نئے پہنے جاتے ہیں، ذہن ایک صاف وشفاف آئینہ ہے۔

جب کسی کا اقبال ہوتا ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اس سے منسوب کر دی جاتی ہیں، اور جب زوال آتا ہے تو اس سے اس کی ذاتی خوبیوں کا بھی انکار کر دیا جاتا ہے۔

جب کوئی بات آدمی دل میں پوشیدہ رکھتا ہے تو زبان سے اس کے اشارے مل جاتے ہیں، چہرہ کے اتار چڑھاؤ سے معلوم ہوتا ہے۔

کسی دوسرے کے غلام مت بنو ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو آزاد پیدا کیا ہے۔

جھوٹی تمناؤں پر بھروسہ کرنے سے بچتے رہو تمنائیں بیوقوفوں کا سرمایہ ہیں۔

لوگ محو خواب ہیں جب مریں گے تو ہوش آ جائے گا۔
تم کو بتاؤں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ وہ جو بندگان خدا کو معصیت کی باتیں حسین بنا کر نہ دکھائے ، اور خدا کی کارروائی سے بے خطر نہ رکھے، اور اس کی رحمت سے مایوس بھی نہ کرے۔
انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے
(یعنی جب تک آدمی بولے نہیں اس کی علمیت اور حقیقت پوشیدہ رہتی ہے)

لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے ان کے دشمن ہو جاتے ہیں۔

لوگ اپنے آباء و اجداد سے زیادہ اپنے زمانہ کے مشابہ ہوتے ہیں
(یعنی لوگوں پر وقت اور ماحول کا اثر زیادہ پڑتا ہے)

جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس کے لئے کوئی بڑا خطرہ یا دھوکہ کا اندیشہ نہیں ۔

کبھی زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نعمتوں کو چھین لیتا ہے۔
المرتضی از مولانا ابوالحسن علی ندوی ص: ۲۸۶ -۲۹۱

اگر تم سے نیکی کا کام ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی تعریف کرو اور اگر برائی کا کام ہو جائےتو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔
دنیا میں صرف دو آدمیوں کے لئے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہو گیا اور پھر اس نے تو بہ کر کے اس کی تلافی کر لی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو۔
تم کو بتاؤں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ وہ جو بندگان خدا کو معصیت کی باتیں حسین بنا کر نہ دکھائے ، اور خدا کی کارروائی سے بے خطر نہ رکھے، اور اس کی رحمت سے مایوس بھی نہ کرے۔
آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اور اتنا نہ لگیں کہ گویا آپ کو اس میں کچھ شک ہے ) اور اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں ( جو علم پر عمل نہیں کرتا وہ اور جاہل دونوں برابر ہوتے ہیں ) اور اپنے گمان کو حق نہ سمجھیں ( یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حق نہ سمجھیں ) اور یہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے جو آپ کو ملی اور آپ نے اسے آگے چلا دیا یا تقسیم کر کے برابر کر دیا یا پہن کر پرانا کر دیا۔ کنز العمال (۲۲۱/۸)

جو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہو سکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے۔
( کیونکہ قرآن میں ہے کہ اللہ متقیوں کے عمل کو قبول فرماتے ہیں)
حلیة الاولیاء (٧٥/١) 2

ہر بھائی چارہ ختم ہو جاتا ہے صرف وہی بھائی چارہ باقی رہتا ہے جو لالچ کے بغیر ہو۔
حياة الصحابة (٥٤٩/٣)
اسے مت دیکھو کہ کون بات کر رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا بات کہہ رہا ہے۔
توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اور اچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے حسن ادب بہترین میراث ہے اور عجب و خود پسندی سے زیادہ سخت تنہائی اور وحشت والی کوئی چیز نہیں۔
حياة الصحابة (٥٤٩/٣)
بے وقوف کی دوستی سے بچنا کیونکہ وہ فائدہ پہنچاتے پہنچاتے تمہارا نقصان کر دے گا اور جھوٹے کی دوستی سے بچنا کیونکہ جو تم سے دور ہے یعنی تمہارا دشمن ہے اسے تمہارے قریب کر دے گا اور جو تمہارے قریب ہے یعنی تمہارا دوست ہے اسے تم سے دور کر دے گا (یا وہ دور والی چیز کو نزدیک اور نزدیک والی چیز کو دور بتائے گا اور تمہارا نقصان کر دے گا) اور کنجوس کی دوستی سے بھی بچنا کیونکہ جب تمہیں اس کی سخت ضرورت ہوگی وہ اس وقت تم سے دور ہو جائے گا اور بدکار کی دوستی سے بچنا کیونکہ وہ تمہیں معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا۔
حياه الصحابة (٥٤٩/٣)
سب سے بڑی مالداری عقلمندی ہے یعنی مال سے بھی زیادہ کام آنے والی چیز عقل اور سمجھ ہے اور سب سے بڑی فقیری حماقت اور بے وقوفی ہے۔ سب سے زیادہ وحشت کی چیز اور سب سے بڑی تنہائی عجب اور خود پسندی ہے اور سب سے زیادہ بڑائی اچھے اخلاق ہیں۔
بے وقوف کی دوستی سے بچنا کیونکہ وہ فائدہ پہنچاتے پہنچاتے تمہارا نقصان کر دے گا اور جھوٹے کی دوستی سے بچنا کیونکہ جو تم سے دور ہے یعنی تمہارا دشمن ہے اسے تمہارے قریب کر دے گا اور جو تمہارے قریب ہے یعنی تمہارا دوست ہے اسے تم سے دور کر دے گا (یا وہ دور والی چیز کو نزدیک اور نزدیک والی چیز کو دور بتائے گا اور تمہارا نقصان کر دے گا) اور کنجوس کی دوستی سے بھی بچنا کیونکہ جب تمہیں اس کی سخت ضرورت ہوگی وہ اس وقت تم سے دور ہو جائے گا اور بدکار کی دوستی سے بچنا کیونکہ وہ تمہیں معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا۔
حياه الصحابة (٥٤٩/٣)
توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اور اچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے حسن ادب بہترین میراث ہے اور عجب و خود پسندی سے زیادہ سخت تنہائی اور وحشت والی کوئی چیز نہیں۔
حياة الصحابة (٥٤٩/٣)
سب سے بڑی مالداری عقلمندی ہے یعنی مال سے بھی زیادہ کام آنے والی چیز عقل اور سمجھ ہے اور سب سے بڑی فقیری حماقت اور بے وقوفی ہے۔ سب سے زیادہ وحشت کی چیز اور سب سے بڑی تنہائی عجب اور خود پسندی ہے اور سب سے زیادہ بڑائی اچھے اخلاق ہیں۔

بیشک مومن تو ایسے لوگ ہیں کہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگر چہ ان کے وطن اور جسم دور ہوں اور منافقین ایسے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں
كنز العمال (١٤١/٣)
اللہ کی قسم ! اہل حق کا اکٹھا ہونا ہی اصل میں اکٹھا ہونا ہے چاہے وہ تعداد میں کم ہوں اور اہل باطل کا اکٹھا ہونا حقیقت میں بکھر جانا ہے چاہے وہ مقدار میں زیادہ ہوں۔
كنز العمال (٦٩/١)
تواضع کی بنیاد تین چیزیں ہیں۔ آدمی کو جو بھی ملے اسے سلام میں پہل کرے اور مجلس کی اچھی جگہ کے بجائے ادنیٰ جگہ میں بیٹھنے پر راضی ہو جائے اور دکھاوے اور شہرت کو برا سمجھے۔
کنز العمال (۱۴۳/۲)

میں کسی مسلمان کی ایک ضرورت پوری کردوں یہ مجھے زمین بھر سونا چاندی ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔
کنز العمال (۳۱۷/۳)
جو آدمی بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ جو حالت بھی اس کے لئے پسند فرماتے ہیں وہ خیر ہی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی حالت کے علاوہ کسی اور حالت کی کبھی تمنا نہ کرے گا اور یہ کیفیت رضا بر قضا کے مقام کا آخری درجہ ہے۔
(كنز العمال (١٤٥/٢)
جو اللہ کے فیصلہ پر راضی ہوگا تو اللہ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ تو ہو کر رہے گا لیکن اسے . اس پر راضی ہونے کی وجہ سے ) اجر ملے گا اور جو اس پر راضی نہ ہوگا تو بھی اللہ کا فیصلہ ہو کر رہے گا لیکن اس کے نیک عمل ضائع ہو جائیں گے۔
كنز العمال (١٤٥/٢)
جہاد کی تین قسمیں ہیں ایک ہاتھ سے جہاد کرنا دوسرا زبان سے جہاد کرنا تیرا دل سے جہاد کرنا۔ سب سے پہلے ہاتھ والا جہاد ختم ہوگا، پھر زبان والا ختم ہو گا پھر دل والا ۔ جب دل کی یہ کیفیت ہو جائے کہ وہ نیکی کو نیکی نہ سمجھے اور برائی کو برائی نہ سمجھے تو اسے اوندھا کر دیا جاتا ہے یعنی اس کے اوپر والے حصے کو نیچے کر دیا جاتا ہے
(پھر خیر اور نیکی کا جذ بہ اس میں نہیں رہتا )
حياة الصحابة (۸۱۲/۲)

اپنا بھید اپنے تک محفوظ رکھو اور کسی پر ظاہر نہ کرو کیونکہ ہر خیر خواہ کے لئے کوئی نہ کوئی خیر خواہ ہوتا ہے۔
حياة الصحابة (٧٩٧/٢)
زبان سارے بدن کی اصلاح کی بنیاد ہے جب زبان ٹھیک ہو جائے تو سارے اعضاء ٹھیک ہو جاتے ہیں اور جب زبان بے قابو ہو جاتی ہے تو تمام اعضاء بے قابو ہو جاتے ہیں۔
حياة الصحابة (٧٩٧/٢)
میں نے گمراہ انسانوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی آدمی کو بے داغ صحیح نہیں رہنے دیتے۔
حياة الصحابة (٧٩٧/٢)

جیسے تم خوف کے وقت عمل کرتے ہو ایسے ہی دوسرے اوقات میں بھی شوق اور رغبت سے عمل کیا کرو۔

میں نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جو جنت جیسی ہو اور پھر بھی اس کا طالب سویا ہوا ہو اور نہ ہی ایسی کوئی چیز دیکھی جو جہنم جیسی ہو اور پھر بھی اس سے بھاگنے والا سوتا رہے۔

غور سے سنو! جو حق سے نفع نہیں اٹھاتا اسے باطل ضرور نقصان پہنچاتا ہے۔

جسے ہدایت سیدھے راستے پر نہ چلا سکی، اسے گمراہی سیدھے راستہ سے ضرور ہٹا دے گی۔

جو جان بوجھ کر محتاج بنتا ہے وہ محتاج ہو ہی جاتا ہے۔

جو کسی سے مشورہ نہیں کرتا اسے ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔
جو بلا اور آزمائش کے لئے تیاری نہیں کرتا جب اس پر آزمائش آتی ہے تو وہ صبر نہیں کر سکتا۔
علم مال سے بہتر ہے، علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور مال کی حفاظت تمہیں کرنی پڑتی ہے۔ علم عمل کرنے سے بڑھتا ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے۔ عالم کی محبت دین ہے جس کا اللہ کے ہاں سے بدلہ ملے گا۔ علم کی وجہ سے عالم کی زندگی میں اس کی بات مانی جاتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کا اچھائی سے تذکرہ کیا جاتا ہے۔
حياة الصحابة (۱۸۰/۳-۱۸۱)
حقیقی عالم ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی انہیں کھلی چھٹی دے اور نہ انہیں اللہ کی پکڑ سے بے خوف اور بے فکر ہونے دے اور نہ قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں ایسا لگے کہ قرآن چھوٹ جائے۔
حياة الصحابة (۲۳۷/۳)
اس عبادت میں خیر نہیں ہے جس میں دینی علم نہ ہو اور اس دینی علم میں خیر نہیں ہے جسے آدمی سمجھا نہ ہو یا جس کے ساتھ پر ہیز گاری نہ ہو اور قرآن کی اس تلاوت میں کوئی خیر نہیں جس میں انسان قرآن کے معنی اور مطلب میں غور وفکر نہ کرے۔
حياة الصحابة (٢٣٧/٣)

آدمی کو سیکھنے میں حیا نہیں کرنی چاہئے اور جس آدمی سے ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں حیا نہیں کرنی چاہئے کہ میں نہیں جانتا۔
کنز العمال (۲۱۸/۸)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے استاد کے آداب کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا
تمہارے استاد کا یہ حق ہے کہ تم اس سے سوال زیادہ نہ کرو اور اسے جواب دینے کی مشقت میں نہ ڈالو یعنی اسے مجبور نہ کرو۔
۔ جب وہ تم سے منہ دوسری طرف پھیر لے تو پھر اس پر اصرار نہ کرو اور جب وہ تھک جائے تو اس کے کپڑے نہ پکڑو اور نہ ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرو اور نہ آنکھوں سے۔
اس کی لغزشیں تلاش نہ کرو اور اگر اس سے کوئی لغزش ہو جائے تو تم اس کے لغزش سے رجوع کا انتظار کرو اور جب وہ رجوع کرلے تو تم اسے قبول کر لو ۔
اپنے استاد سے یہ نہ کہو کہ فلاں نے آپ کی بات کے خلاف بات کہی ہے۔
اس کے کسی راز کا افشاء نہ کرو۔ اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرو اس کے سامنے اور اس کے پیٹھ پیچھے دونوں حالتوں میں اس کے حق کا خیال کرو۔
تمام لوگوں کو سلام کرو لیکن اسے بھی خاص طور سے کرو۔
تمام لوگوں کو سلام کرو لیکن اسے بھی خاص طور سے کرو۔
اس کے سامنے بیٹھو اگر اسے کوئی ضرورت ہو تو دوسروں سے آگے بڑھ کر اس کی خدمت کرو
اس کے پاس جتنا وقت بھی تمہارا گزر جائے تنگدل نہ ہونا کیونکہ یہ عالم کھجور کے درخت کی طرح ہے جس سے ہر وقت کسی نہ کسی فائدے کے حصول کا انتظار رہتا ہے، یہ عالم اس روزہ دار کے درجہ میں ہے جو اللہ کے راستہ میں جہاد کر رہا ہو جب ایسا عالم مر جاتا ہے تو اسلام میں ایسا شگاف پڑ جاتا ہے جو قیامت تک پر نہیں ہوسکتا۔ حياة الصحابة (٢٣٨/٣)

جس شخص کی زبان اس پر حاکم بن جائے وہ ذلیل ہوکر رہتا ہے۔
یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھے جتنا فائدہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس خط سے ہوا اتنا فائدہ اور کسی چیز سے نہیں ہوا۔ آپ نے میری طرف خط میں لکھا تھا
اما بعد! یہ بات شک وشبہ سے بالا تر ہے کہ آدمی کو اس چیز کے حاصل کرنے سے خوشی ہوتی ہے جو کبھی اس سے ضائع نہ ہو اور آدمی اس چیز کے ضائع ہونے پر غمگین اور نادم ہوتا ہے جس کا حاصل کرنا اس کے لئے ممکن نہیں۔ پس آپ کی خوشی ہمیشہ آخرت کی چیزوں کے حصول اور آپ کا غم آخرت کی چیزوں سے محرومی سے وابستہ ہونا چاہئے، دنیا کی کوئی چیز ضائع ہو جائے تو افسوس مت کرنا اور اگر دنیا کی کوئی چیز مل جائے تو خوشی کی وجہ سے تکبر اورخود پسندی کا شکار مت ہونا ، تمہارے زیر نظر آخرت کی زندگی ہی ہونی چاہئے
نفحة العرب، ص: ١٣١
کچھ لوگ اللہ کی عبادت جنت کی رغبت اور لالچ کی وجہ سے کرتے ہیں فتلك عبادة التجار یہ تاجروں والی عبادت ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خوف اور ڈر کی وجہ سے اللہ کی عبادت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ فتلک عبادة العبيد یہ غلاموں والی عبادت ہے۔ اور اللہ کی مخلوق میں کچھ ایسے بلند ہمت لوگ بھی ہیں جو اللہ کی عبادت جنت کی لالچ اور جہنم کے خوف سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے کرتے ہیں ۔ فتلک عبادة الاحرار ۔ بی آزاد اور بلند حوصلہ لوگوں کی عبادت ہے۔
مرقاة المفاتيح (١٤٢/٣)
انسان پر تعجب کرو جو چکنائی سے بنی ہوئی چیز ( آنکھ ) سے دیکھتا ہے، گوشت (زبان) سے بولتا ہے، ہڈی (کان) سے سنتا ہے اور ایک خالی جگہ (ناک) سے سونگھتا ہے۔
لوگوں کے ساتھ ایسا طرز زندگی اختیار کرو کہ تمہارے مرنے پر وہ آبدیدہ ہو جائیں اور تمہاری زندگی میں وہ تمہارے ہم نشین رہیں۔

عقل مند کا سینہ اس کے رازوں کا صندوق ہوتا ہے۔
نهج البلاغة الحزء الرابع، ص: ٥٣٩

جب دنیا کسی کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے مل جاتی ہیں اور جب کسی سے رخ پھیرتی ہے تو اس کی خوبیوں سے بھی اسے محروم کر دیتی ہے۔

سب سے کمزور آدمی وہ ہے جو لوگوں کو دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھی کمزور وہ شخص ہے جو لوگوں کو دوست بنانے کے بعد ضائع کر دے۔

جس کے قریبی لوگ اس کی قدر نہیں کرتے تو دور والے اس کی تو قیر و تعظیم میں لگ جاتے ہیں۔ نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٤٠

ہیبت وخوف سے نا کامی اور حد سے زیادہ حیاء کرنے سے محرومی ملتی ہے۔

مواقع بادلوں کی طرح آتے جاتے رہتے ہیں پس اگر کسی خیر کا موقع مل جائے تو اسے ضائع مت کرو۔

اے ابن آدم! تو دیکھ رہا ہے کہ تیرا رب تجھ پر ہر آن ہر گھڑی نعمتیں برسا رہا ہے جبکہ تو اس کی معصیت پر ڈٹا ہوا ہے، ان نعمتوں کو دیکھ کر تجھے گناہوں سے باز آجانا چاہئے۔

جب کوئی کسی بات کو چھپاتا ہے تو وہ اس کی زبان کی لغزشوں اور چہرے کے خدو خال سے ظاہر ہو جاتی ہے۔

جب تک بیماری کے ساتھ کام کرنا ممکن ہوکر تے رہو۔

سب سے افضل زہد، زہد کو چھپانا ہے۔
نهج البلاغة، الجزء الرابع، ص: ٥٤٢

سب سے بڑی مال داری امید کو خیر باد کہنا ہے۔

جس کی امید لمبی ہوگی اس کا عمل خراب ہو جائے گا۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٤٥

اگر نفلی عبادت فرائض میں نقصان کا سبب بن رہی ہوں تو ایسے نوافل سے ثوابحاصل نہ ہوگا۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٤٦

وہ گناہ جو آپ کو غمگین کر دے اس نیکی سے بہتر ہے جو آپ کو عجب اور خود پسندی میں مبتلا کر دے۔ نهج البلاغة، الجزء الرابع، ص: ٥٤٧

سخاوت تو وہ ہے جو بن مانگے عطا کیا جائے ، جو چیز مانگ کر دی جائے وہ حیاء اور شرمندگی سے بچنے کے لئے ہے۔

عقل جیسی مالداری نہیں ، جہالت جیسی ناداری نہیں ، ادب جیسی میراث کوئی نہیں اور مشورہ جیسی دانش مندی کوئی نہیں۔

صبر دو طرح کا ہوتا ہے، ایک وہ صبر جو کسی ناگوار صورت کے پیش آنے پر کیا جائے اور دوسرا وہ صبر جو کسی محبوب چیز سے محرومی پر کیا جائے۔
نهج البلاغة، الجزء الرابع، ص: ٥٤٨

مال تمام شہوات کا مادہ اور بنیاد ہے۔

زبان ایک درندہ ہے، اگر اسے آزاد چھوڑ دیا جائے تو ہلاک کر دے گا۔
نهج البلاغة، الجزء الرابع، ص: ٥٤٨

محبوب لوگوں کو کھو دینا انسان کو وطن میں بھی پردیسی بنادیتا ہے۔

جب عقل کامل ہو جاتی ہے تو کلام کم ہو جاتا ہے۔
نهج البلاغة، الجزء الرابع، ص: ٥٤٩

مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہو بیٹھا ہے حالانکہ اس کے پاس استغفار موجود ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے گناہوں کو معاف کرواسکتا ہے۔

کامیاب فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہ کرے، اور انہیں اللہ کے عذاب سے مامون نہ کرے۔ نهج البلاغة الجزء الرابع، ص ٥٥٣
جو شخص اپنے اور اللہ تعالیٰ کے تعلق کو درست کر لے گا اللہ تعالیٰ اس کے اور لوگوں سے تعلق کو درست کر دے گا۔ جو شخص آخرت کے معاملہ کو درست کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے معاملہ کی اصلاح فرما دے گا۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٥٢
اللہ تعالیٰ پر یقین کے ساتھ سو جانا شک کی نماز سے بہتر ہے۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٥٤
دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے، اس کا ظاہر نرم و ملائم اور دلکش ہے جبکہ اس کے اندر ہلاکت خیز زہر چھپا ہوا ہے۔ بے وقوف جاہل اس میں دلچسپی رکھتا ہے جب کہ سمجھدار اور دانش مند شخص اس سے دور بھاگتا ہے۔
نهج البلاغة، الحزء الرابع، ص: ٥٥٩

تقویٰ کے ساتھ تھوڑا عمل بھی بہت ہے، جو چیز قبول ہو جائے وہ تھوڑی کیسے ہوسکتی ہے۔

جس شخص کے دل میں خالق کی عظمت ہوتی ہے ساری مخلوق اس کی نگاہ میں چھوٹی ہو جاتی ہے۔
نهج البلاغة، الجزء الرابع، ص: ٥٦١

صدقہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے رزق طلب کرو۔
جسے چار چیزیں عطا کر دی جائیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں ہوسکتا
جسے دعا عطا کر دی جائے وہ عطا سے محروم نہیں ہوتا
جسے توبہ عطا کردی جائے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا
جسے استغفار عطا کر دیا جائے وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا
جسے شکر عطا کر دیا جائے وہ زیادتی سے محروم نہیں ہوتا۔

اپنے آپ کو تہمت کی جگہوں پر لے جانے والا اس شخص کو ملامت نہ کرے جو اس کے بارے میں بدگمانی کرتا ہے۔

فقر بڑی موت ہے۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٦٩

لوگ جس چیز سے ناواقف ہوں اس کے دشمن ہوتے ہیں۔

سینہ کا کشادہ پن سرداری کا زینہ ہے۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٧٠

جیسے جہالت کی بات کرنا خیر سے خالی ہے اسی طرح دانش مندی کی بات نہ کرنے میں بھی خیر نہیں ۔

جسے صبر فائدہ نہ پہنچا سکے اسے بے صبری ہلاک کر دیتی ہے۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٧١

ہر برتن کی یہ حالت ہے کہ جب اس میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے تو وہ تنگ ہوتا ہے لیکن علم کا برتن ایسا ہے کہ جب اس میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے وہ کھلتا چلا جاتا ہے۔
نهج البلاغة الحزء الرابع، ص: ٥٧٤

مختلف حالات کے الٹ پلٹ ہونے میں آدمی کے جواہر کا پتہ چلتا ہے۔
نهج البلاغة الحزء الرابع، ص: ٥٧٦

لالچی ذلت کی بیڑیوں میں جکڑا رہتا ہے۔
نهج البلاغة، الجزء الرابع، ص: ٥٧٧

اگر کوئی شخص آپ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے تو آپ اس کے گمان کو سچا کر کے دکھا ئیں۔

میں نے اللہ تعالیٰ کو ارادوں کے ٹوٹنے اور نیتوں کے بکھرنے سے پہچانا۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٨٠

غیرت مند آدمی کبھی زنا نہیں کرتا۔ نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٥٩٤

موت بہترین پہرے دار ہے۔
تمہارے دوست بھی تین ہیں اور دشمن بھی تمہارے تین دوست یہ ہیں
تمہارا دوست
تمہارے دوست کا دوست
تمہارے دشمن کا دشمن
تمہارے تین دشمن یہ ہیں
تمہارا دشمن
تمہارے دوست کا دشمن
تمہارے دشمن کا دوست

آدمی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کے خزانوں پر اس کا اعتماد اپنے پاس موجود چیزوں سے زیادہ نہ ہو جائے۔

تنہائیوں میں گناہ کرنے سے بچو کیونکہ جو تمہیں دیکھ رہا ہے فیصلہ اسی نے کرنا ہے۔
نهج البلاغة الحزء الرابع، ص :٥٩٨

ہر آدمی کے مال میں دو شریک ہوتے ہیں ایک وارث اور دوسرا حوادثات زمانہ ۔

کسی کے استحقاق سے بڑھ کر اس کی تعریف کرنا خوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرنا حسد۔
نهج البلاغة الحزء الرابع، ص: ٦٠١

بغیر عمل کے دعوت دینے والا ایسے ہے جیسے بغیر کمان کے تیر پھینکنے والا ۔
نهج البلاغة، الجزء الرابع، ص: ٦٠٠

کسی کی زبان سے برائی کا کوئی کلمہ نکلے تو اس کے بارے میں اس وقت تک بدگمانی نہ کرو جب تک اس کی بات میں بھلائی کا احتمال موجود ہے۔

بخل تمام خرابیوں کو جمع کرنے والا ہے، یہ ایک لگام ہے جس کے ذریعہ انسان کو تمام خرابیوں کی طرف ہنکایا جاسکتا ہے۔
علم عمل کے ساتھ ملا ہوا ہے، پس جو علم حاصل کرے وہ عمل بھی کرے۔ علم عمل کی طرف پکارتا ہے اگر اس کی پکار سن لی جائے تو وہ ٹھہر جاتا ہے اور اگر اس کی پکار پر لبیک نہ کہا جائے تو علم رخصت ہو جاتا ہے۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٦٠٤
وہ خیر کوئی خیر نہیں جس کے بعد جہنم ہے اور وہ شر کوئی شرنہیں جس کے بعد جنت ہے۔ دنیا کی ہر نعمت جنت کے مقابلہ میں حقیر ہے اور دنیا کی ہر مصیبت جہنم کی مصیبتوں کے مقابلہ میں عافیت ہے۔ نهج البلاغة الحزء الرابع، ص: ٦١٠

جب آدمی کسی چیز کی طلب کرتا ہے تو وہ اسے مل ہی جاتی ہے اگر ساری نہ بھی ملے تو کچھ نہ کچھ تو ہاتھ آہی جاتا ہے۔

جو دنیا مل جائے وہ لے لو اور دنیا کی جو چیز تم سے دور ہے تم بھی اس سے دور رہو۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٦١١

جو حق سے مقابلہ کرے گا حق اس کو پچھاڑ کر رکھ دے گا۔

جو چھوٹی مصیبتوں پر صبر نہ کرے اللہ تعالی اسے بڑی آزمائشوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
رزق کی دو قسمیں ہیں ایک رزق طالب ہے اور دوسرا رزق مطلوب ہے۔ جو شخص دنیا کو طلب کرتا ہے موت اس کی طالب بن جاتی ہے یہاں تک کہ اسے دنیا سے نکال دیتی ہے اور جو شخص آخرت کا طالب بن جاتا ہے دنیا اس کی طالب بن جاتی ہے، یہاں تک کہ اسے اپنا رزق ضرورت کے مطابق مل جاتا ہے۔ نهج البلاغة الحزء الرابع، ص: ٦١٦
جو حق سے مقابلہ کرے گا حق اس کو پچھاڑ کر رکھ دے گا۔

انسان کا کیا فخر کرنا ؟ اس کی ابتداء نا پاک پانی ہے اور انتہاء مردار لاش ہے، نہ اپنا رزق خود پیدا کر سکتا ہے اور نہ اپنی موت کو دور کر سکتا ہے۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٦١٩

سب سے خطر ناک گناہ وہ ہے جسے اس کا کرنے والا ہلکا سمجھے۔

بدترین دوست وہ ہے جس کے لئے تکلف کرنا پڑے۔

جب کسی مومن کو اس کا بھائی شرمندہ کرے یا غصہ دلائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کی جدائی کا وقت قریب آگیا ہے۔
نهج البلاغة الجزء الرابع، ص: ٦٢٤

عقل مند اپنے آپ کو پست کر کے بلندی حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے آپ کو بڑھا کر ذلت اٹھاتا ہے۔

دوستی ایک خود پیدا کردہ رشتہ ہے۔

گناہوں پر نادم ہونا ان کو مٹادیتا ہے اور نیکیوں پر مغرور ہونا ان کو برباد کر دیتا ہے۔

بے کاری میں عشق بازی یاد آ جاتی ہے۔

معافی نہایت اچھا انتقام ہے۔

غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔

تجربے کبھی ختم نہیں ہوتے اور عقل مندان میں ترقی کرتا ہے۔

مصیبت میں گھبرانا کمال درجے کی مصیبت ہے۔

جلدی سے معاف کرنا انتہائے شرافت اور انتقام میں جلدی کرنا انتہائے رذالت ہے۔

شریف کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی سختی کرے تو سختی سے پیش آتا ہے اور جب کوئی نرمی کرے تو ڈھیلا ہو جاتا ہے۔ اور کمینے سے جب کوئی نرمی کرے تو سختی سے پیش آتا ہے اور جب سختی کرے تو ڈھیلا ہو جاتا ہے۔

انسان جو حالت اپنے لئے پسند کرتا ہے اسی حالت میں رہتا ہے۔

برا آدمی کسی کے ساتھ نیک گمان نہیں رکھتا کیونکہ وہ ہر ایک کو اپنے جیسا گمان کرتا ہے۔

جب تک کوئی بات تیرے منہ میں ہے تب تک تو اس کا مالک ہے۔ جب زبان سے نکال چکے تو وہ تیری مالک ہے۔

اول عمر میں جو وقت ضائع کیا ہے آخر عمر میں اس کا تدارک کر تاکہ انجام بخیر ہو۔

جس شخص کے دل میں جتنی زیادہ حرص ہوتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ پر اتنا ہی کم یقین ہوتا ہے۔
مخزن اخلاق