Fazail Hazrat Usman: Urdu Hadith Quotes Collection

 Fazail Hazrat Usman رضی الله عنہ: Timeless Wisdom in Urdu Hadith Quotes

Explore Hazrat Usman رضی الله عنہ’s timeless impact with the help of “Fazail Hazrat Usman: Urdu Hadith Quotes Collection.” This carefully chosen collection of Hadiths reveals Hazrat Usman رضی الله عنہ’s timeless wisdom, unshakable faith, and remarkable characteristics. Hazrat Usman رضی الله عنہ, one of the most revered individuals in Islamic history, offers followers instruction through his life. Explore these statements in Urdu that capture his unwavering dedication to justice, his unparalleled compassion, and his crucial role in the early Islamic community. They will inspire everyone who is seeking knowledge and spirituality. You can also read Hazrat Usman رضی ‌اللہ ‌عنہ Quotes in Urdu to gain more insights into his life and teachings.
For More Quotes, Please Click Here

Fazail Hazrat Abu Bakr: Urdu Hadith Quotes Collection
Fazail Hazrat Abu Bakr: Urdu Hadith Quotes Collection

نبی کریم ﷺ کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے ، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ۔
صحیح بخاری:3655

Fazail Hazrat Abu Bakr: Urdu Hadith Quotes Collection
Fazail Hazrat Abu Bakr: Urdu Hadith Quotes Collection

حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد ( علی رضی اللہ عنہ ) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں ؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) ۔ میں نے پوچھا پھر کون ہیں ؟ انہوں نے بتلایا ، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب ( پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد ؟ تو ) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ ۔ اس لیے میں نے خود کہا ، اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ ہیں ؟ یہ سن کر بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں ۔
صحیح بخاری:3671

Fazail Hazrat Abu Bakr: Urdu Hadith Quotes Collection
Fazail Hazrat Abu Bakr: Urdu Hadith Quotes Collection

نبی کریم ﷺ کے عہد میں ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں قرار دیتے تھے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کے صحابہ پر ہم کوئی بحث نہیں کرتے تھے اور کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے
صحیح بخاری:3698

Fazail Hazrat Abu Bakr: Urdu Hadith Quotes Collection
Fazail Hazrat Abu Bakr: Urdu Hadith Quotes Collection

نبی کریم ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے تو آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے ، پہاڑ لرزنے لگا تو آنحضرت ﷺ نے اپنے پاؤں سے اسے مارا اور فرمایا : احد ! ٹھہرا رہ کہ تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں ۔
صحیح بخاری:3686

Fazail Hazrat Usman: Urdu Hadith Quotes Collection
Fazail Hazrat Usman: Urdu Hadith Quotes Collection

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عثمان! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتا  پہنائے، اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان کے لیے نہ اتارنا
سنن الترمذی:3705
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے حضرت عائشہ‬ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : اے عثمان رضی اللہ عنہ ! اگر اللہ تعالیٰ کسی دن تجھے خلافت کی ذمہ داری بخشے ، پھر منافق تجھ سے وہ قمیص اتروانا چاہیں جو اللہ نے تجھے پہنائی ہو ، تو اسے مت اتارنا ۔آپ ﷺ نے تین بار یہی بات فرمائی ۔ حضرت نعمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عائشہ‬ رضی اللہ عنہا سے کہا : آپ نے لوگوں کو یہ حدیث کیوں نہیں سنائی تھی ؟ انہوں نے کہا : میں اسے بھلا دی گئی تھی ۔
سنن ابن ماجہ:112
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا تو فرمایا: اس فتنہ میں یہ عثمان بھی مظلوم قتل کیا جائے گا ( یہ بات آپ نے عثمان رضی الله عنہ کے متعلق کہی ) ۔
سنن الترمذی:3708
حضرت ابو سہلہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ نے مجھ سے جس دن وہ گھر میں محصور تھے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا تھا اور میں اس عہد پر صابر یعنی قائم ہوں
سنن الترمذی:3711
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بدر والے دن کھڑے ہوئے اور فرمایا : عثمان رضی اللہ عنہ اللہ کے کام سے اور رسول اللہ کے کام سے گئے ہیں اور میں ان کی بیعت لے رہا ہوں  پھر آپ ﷺ نے غنیمت میں سے ان کا حصہ نکالا ، اور ان کے سوا غائب رہنے والوں میں سے کسی کو کچھ نہیں دیا ۔
سنن ابو داؤد:2726
حضرت عثمان رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے، ( حسن بن واقع جو راوی حدیث ہیں کہتے ہیں: دوسری جگہ میری کتاب میں یوں ہے کہ وہ اپنی آستین میں لے کر آئے ) ، جس وقت انہوں نے جیش عسرہ کو تیار کیا، اور اسے آپ کی گود میں ڈال دیا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے اپنی گود میں الٹتے پلٹتے دیکھا اور یہ کہتے سنا کہ آج کے بعد سے عثمان (رضی اللہ عنہ) کو کوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا“، ایسا آپ  نے دو بار فرمایا۔
سنن الترمذی:3701
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیعت رضوان کا حکم دیا گیا تو عثمان بن عفان رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد بن کر اہل مکہ کے پاس گئے ہوئے تھے، جب آپ نے لوگوں سے بیعت لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان (رضی اللہ عنہ) اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک کو دوسرے پر مارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ جسے آپ نے عثمان (رضی اللہ عنہ) کے لیے استعمال کیا لوگوں کے ہاتھوں سے بہتر تھا۔
سنن الترمذی:3702
محمد بن ابی حرملہ نے یسار کے دونوں بیٹوں عطاء اور سلیمان اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے ، آپ کی دونوں رانیں یا دونوں پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( اندر آنے کی ) اجازت طلب کی ، آپ نے ان کو اجازت دے دی اور آپ اسی حالت میں رہے ، پھر آپ باتیں کرتے رہے ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی ، آپ نے ان کو بھی اجازت دے دی ، اور آپ اسی حالت میں رہے اور باتیں کیں ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے سیدھے کر لیے ۔۔۔ محمد ( بن ابی حرملہ ) نے کہا : میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے ۔۔۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے اور کوئی بات کی ، جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپﷺ  ان کے لیے ہشاش بشاش نہیں ہوئے ، نہ ان کے لیے اہتمام کیا ، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ہشاش بشاش نہیں ہوئے ، نہ ان کے لیے اہتمام کیا ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے سیدھے کیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں اس آدمی کا حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔
صحیح مسلم:6209
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے ، انھوں نے یحیی بن سعید بن عاص سے روایت کی ، انھیں سعید بن عاص نے بتایا کہ نبی ﷺ کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی ، اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر اوڑھ رکھی تھی ۔ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اسی حالت میں اندر آنے کی اجازت دے دی ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بات کی ، پھر چلے گئے ۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی ، آپ نے اجازت دے دی ۔ وہ بھی جس کام کے لئے آئے تھے ، وہ کیا ، پھر چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا : پھر میں نے آپ کے پاس حاضری کی اجازت چاہی تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا :’’ اپنے کپڑے اپنے اوپر اکٹھے کر لو ۔‘‘ پھر میں جس کام کے لئے آیا تھا وہ کیا اور واپس آ گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا وجہ ہے میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے لئے اس طرح ہڑبڑا کے اٹھے ہوں جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے اٹھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :عثمان انتہائی حیادار ہیں ، مجھے ڈر تھا کہ میں نے اسی حالت میں ان کو آنے کی اجازت دی تو وہ اپنی ضرورت کے بارے میں مجھ سے بات نہیں کر سکیں گے۔
صحیح مسلم:6210
عثمان بن غیاث نے ابوعثمان نہدی سے ، انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک دن رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ کے پاس جو لکڑی تھی اس ( کی نوک ) کو پانی اور مٹی کے درمیان مار رہے تھے کہ ایک شخص نے ( باغ کا دروازہ ) کھولنے کی درخواست کی ، آپ نے فرمایا : دروازہ کھول دو اور اس ( آنے والے ) کو جنت کی خوشخبری سنا دو ۔ ( ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے  کہا : وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے ، میں نے ان کے لئے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی ۔ کہا : پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی ، آپ ﷺ نے فرمایا :دروازہ کھول دو اور اسے ( بھی ) جنت کی بشارت دو ۔ میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے ۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی ۔ اس کے بعد ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی ، کہا : تو آپ ( سیدھے ہو کر ) بیٹھ گئے ، پھر فرمایا :دروازہ کھولو اور فتنے پر جو ( برپا ) ہو گا ، انھیں جنت کی خوشخبری دے دو ۔ کہا : میں گیا تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے ۔ کہا : میں نے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی خوشخبری دی اور آپ نے جو کچھ فرمایا تھا ، انھیں بتایا ۔ انھوں نے کہا : اے اللہ ! صبر عطا فرمانا اور اللہ ہی ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے ۔
صحیح مسلم:6212
اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما ہیں تو وہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہا ہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی الله عنہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہیں تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر میں موجود نہیں تھے، تمہارے انہوں نے کہا: ہاں، اس مصری نے ازراہ تعجب اللہ اکبر کہا ۱؎، اس پر ابن عمر رضی الله عنہما نے اس سے کہا: آؤ میں تیرے سوالوں کو تم پر واضح کر دوں: رہا ان ( عثمان ) کا احد کے دن بھاگنا ۲؎ تو تو گواہ رہ کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا اور بخش دیا ہے ۳؎ اور رہی بدر کے دن، ان کی غیر حاضری تو ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ”تمہیں اس آدمی کے برابر ثواب اور اس کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا، جو بدر میں حاضر ہو گا“، اور رہی ان کی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عثمان سے بڑھ کر وادی مکہ میں کوئی باعزت ہوتا تو عثمان رضی الله عنہ کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان کو مکہ بھیجا اور بیعت رضوان عثمان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ عثمان کا ہاتھ ہے“، اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: ”یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے“، تو ابن عمر رضی الله عنہما نے اس سے کہا: اب یہ جواب تو اپنے ساتھ لیتا جا۔
سنن الترمذی:3706
جب عثمان رضی الله عنہ کا محاصرہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے مکان کے کوٹھے سے جھانک کر بلوائیوں کو دیکھا پھر کہا: میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یاد دلاتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ حرا پہاڑ سے جس وقت وہ ہلا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”حرا ٹھہرے رہو! کیونکہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں؟“، ان لوگوں نے کہا: ہاں، پھر عثمان رضی الله عنہ نے کہا: میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یاد لاتا ہوں، کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیش عسرہ ( غزوہ تبوک ) کے سلسلے میں فرمایا تھا: ”کون ( اس غزوہ کا ) خرچ دے گا جو اللہ کے نزدیک مقبول ہو گا ( اور لوگ اس وقت پریشانی اور تنگی میں تھے ) “ تو میں نے ( خرچ دے کر ) اس لشکر کو تیار کیا؟، لوگوں نے کہا: ہاں، پھر عثمان رضی الله عنہ نے کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر یاد دلاتا ہوں: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بئررومہ کا پانی بغیر قیمت کے کوئی پی نہیں سکتا تھا تو میں نے اسے خرید کر غنی، محتاج اور مسافر سب کے لیے وقف کر دیا؟، لوگوں نے کہا: ہاں، ہمیں معلوم ہے اور اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں انہوں نے گنوائیں ۔
سنن الترمذی:3699
حضرت ثمامہ بن حزن قشیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اس وقت گھر میں موجود تھا جب عثمان رضی الله عنہ نے کوٹھے سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہا تھا: تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ، جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے یعنی بڑے موٹے اور طاقتور، تو عثمان رضی الله عنہ نے انہیں جھانک کر دیکھا اور کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئررومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون بئررومہ کو جنت میں اپنے لیے اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کر دے گا؟“، یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو، یہاں تک کہ میں سمندر کا ( کھارا ) پانی پی رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، یہی بات ہے، انہوں نے کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہو گئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟“، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے نہیں دے رہے ہو، لوگوں نے کہا: ہاں، بات یہی ہے، پھر انہوں نے کہا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر رضی الله عنہما تھے اور میں تھا، تو پہاڑ لرزنے لگا، یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا: ”ٹھہر اے ثبیر! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی اور نہیں“، لوگوں نے کہا: ہاں بات یہی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر! قسم ہے رب کعبہ کی! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی، یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔
سنن الترمذی:3703
مقررین ملک شام میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بھی کچھ لوگ تھے، پھر سب سے آخر میں ایک شخص کھڑا ہوا جسے مرہ بن کعب رضی الله عنہ کہا جاتا تھا، اس نے کہا: اگر میں نے ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنی ہوتی تو میں کھڑا نہ ہوتا، پھر انہوں نے فتنوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس کا ظہور قریب ہے، پھر ایک شخص منہ پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو مرہ نے کہا: یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کیا: ”یہ اس دن ہدایت پر ہو گا“، تو میں اسے دیکھنے کے لیے اس کی طرف اٹھا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ عثمان بن عفان رضی الله عنہ ہیں، پھر میں نے ان کا منہ مرہ کی طرف کر کے کہا: وہ یہی ہیں، انہوں نے کہا: ہاں وہ یہی ہیں۔
سنن الترمذی:3704
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ایک صحابی کو بلاؤ۔ میں نے کہا: سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: آپ کے چچا زاد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ وہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم ذرا ایک طرف ہوجاؤ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ چپکے سے باتیں کرنا شروع کیں، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا رنگ فق ہونے لگا، پھر جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنے گھر میں محصور کر دیا گیا تو ہم نے کہا: اے امیر المومنین! آپ ان باغیوں کے ساتھ لڑتے کیوں نہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، میں لڑائی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اس بات کا عہد لیا تھا اور میں ان حالات پر اپنے آپ کو صابر ثابت کرنے والا ہوں۔
مسند احمد:12250

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top